وہ کاروان بہاراں کہ بے درا ہوگا

عارف عبدالمتین

وہ کاروان بہاراں کہ بے درا ہوگا سکوت غنچہ کی منزل پہ رک گیا ہوگا بجا کہ دل نہیں زندان بے خودی کا اسیر مگر یہ قید انا سے کہاں رہا ہوگا شعاع مہر کی نظارگی کے شوق میں چاند فلک کے دیدۂ بے خواب میں ڈھلا ہوگا کچھ ایسی سہل نہیں فن کی منفرد تخلیق خدا بھی میری طرح پہروں سوچتا ہوگا میں تیرے ذہن میں رچ بس گیا ہوں مثل خیال جدھر بھی جائے گا تو میرا سامنا ہوگا بہا کے لے بھی گیا میری ہر متاع سکوں جو اشک ابھی ترے رخ پر نہیں بہا ہوگا یہ آرزو ہے کہ وہ دن نہ دیکھنا ہو نصیب مرے عمل سے مرا فکر جب خفا ہوگا کھلا رہا ہے جو حرف و نوا کے لالہ و گل وہ میرا نطق نہیں موجۂ صبا ہوگا

X