روح کے جلتے خرابے کا مداوا بھی نہیں درد وہ بادل ہے جو کھل کر برستا بھی نہیں شہر کے زنداں نے پہنا دیں وہ زنجیریں مجھے میری وحشت کو میسر دل کا صحرا بھی نہیں جس میں بہہ جائے سفینے کی طرح میرا وجود میری آنکھوں سے رواں غم کا وہ دریا بھی نہیں کرب کا سورج سوا نیزے پہ ہے ٹھہرا ہوا دل مرا ہے برف زار ایسا پگھلتا بھی نہیں مجھ کو یکجائی کی حسرت سے بھلا کیا واسطہ میں تو جی بھر کر سر آفاق بکھرا بھی نہیں مدتوں در پر مرے وہ دستکیں دیتا رہا میں مگر وہ نیند کا ماتا کہ چونکا بھی نہیں