پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو ہجر والوں نے
-
No React!
- 0
پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو ہجر والوں نے
زخم کے پھول سے تسکین طلب کرتی ہے بعض اوقات مری روح غضب کرتی ہے جو تری زلف سے اترے ہوں مرے آنگن میں چاندنی ایسے اندھیروں کا ادب
معرکہ اب کے ہوا بھی تو پھر ایسا ہوگا تیرے دریا پہ مری پیاس کا پہرہ ہوگا اس کی آنکھیں ترے چہرے پہ بہت بولتی ہیں اس نے پلکوں
کٹھن تنہائیوں سے کون کھیلا میں اکیلا بھرا اب بھی مرے گاؤں کا میلہ میں اکیلا بچھڑ کر تجھ سے میں شب بھر نہ سویا کون رویا بجز میرے
ترے جلوے تیرے حجاب کو میری حیرتوں سے نمو ملی کہ تھا شب سے دن کبھی تیرہ تر کبھی شب ہی آئنہ رو ملی تری قربتوں سے بھی کیا
ہوائے ہجر میں جو کچھ تھا اب کے خاک ہوا کہ پیرہن تو گیا تھا بدن بھی چاک ہوا اب اس سے ترک تعلق کروں تو مر جاؤں بدن