ترے بازوؤں کا سہارا تو لے لوں مگر ان میں بھی رچ گئی ہے تھکن
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
ترے بازوؤں کا سہارا تو لے لوں مگر ان میں بھی رچ گئی ہے تھکن میں صحرا سے بچ کر چمن میں تو آؤں پہ صحرا سے کچھ کم
-
No React!
- 0
ترے بازوؤں کا سہارا تو لے لوں مگر ان میں بھی رچ گئی ہے تھکن میں صحرا سے بچ کر چمن میں تو آؤں پہ صحرا سے کچھ کم
جو ابھرے وقت کے سانچے میں ڈھل کے وہ ڈوبے ایک عالم کو بدل کے غم منزل تجھے شاید خبر ہو یہاں پہنچے ہیں کتنے کوس چل کے اب
میں جس کو راہ دکھاؤں وہی ہٹائے مجھے میں نقش پا ہوں کوئی خاک سے اٹھائے مجھے مہک اٹھے گی فضا میرے تن کی خوشبو سے میں عود ہوں
کتنی حسرت سے تری آنکھ کا بادل برسا یہ الگ بات مرا شعلۂ غم بجھ نہ سکا تیرا پیکر ہے وہ آئینہ کہ جس کے دم سے میں نے
دن ہو کہ رات, کنج قفس ہو کہ صحن باغ آلام روزگار سے حاصل نہیں فراغ رغبت کسے کہ لیجئے عیش و طرب کا نام فرصت کہاں کہ کیجیے
ضرورت تھی کہ جو میداں میں نکلے سر بکف نکلے مگر ہم ہیں کہ نکلے بھی تو لے کر چنگ و دف نکلے ہمیں تھے انقلاب دہر کے پیغامبر