آنکھوں سے اک خواب گزرنے والا ہے
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
آنکھوں سے اک خواب گزرنے والا ہے کھڑکی سے مہتاب گزرنے والا ہے صدیوں کے ان خواب گزیدہ شہروں سے مہر عالم تاب گزرنے والا ہے جادوگر کی قید
-
No React!
- 0
آنکھوں سے اک خواب گزرنے والا ہے کھڑکی سے مہتاب گزرنے والا ہے صدیوں کے ان خواب گزیدہ شہروں سے مہر عالم تاب گزرنے والا ہے جادوگر کی قید
ہر چند مرا غم غم نادیدہ رہا ہے سایہ سا مگر روح پہ لرزیدہ رہا ہے چبھتے ہی رہے خار الم دست طلب میں راحت وہ گل جاں ہے
ہم بھی ناداں ہیں سمجھتے ہیں کہ چھٹ جائے گی تیرگی نور کے پیکر میں سمٹ جائے گی لوگ کہتے ہیں محبت سے تمنا جس کو میری شہ رگ
روح کے جلتے خرابے کا مداوا بھی نہیں درد وہ بادل ہے جو کھل کر برستا بھی نہیں شہر کے زنداں نے پہنا دیں وہ زنجیریں مجھے میری وحشت
ترے بازوؤں کا سہارا تو لے لوں مگر ان میں بھی رچ گئی ہے تھکن میں صحرا سے بچ کر چمن میں تو آؤں پہ صحرا سے کچھ کم
جو ابھرے وقت کے سانچے میں ڈھل کے وہ ڈوبے ایک عالم کو بدل کے غم منزل تجھے شاید خبر ہو یہاں پہنچے ہیں کتنے کوس چل کے اب