بند تھا دروازہ بھی اور اگر میں بھی تنہا تھا میں
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
بند تھا دروازہ بھی اور اگر میں بھی تنہا تھا میں وہم تھا جانے مرا یا آپ ہی بولا تھا میں یاد ہے اب تک مجھے وہ بد حواسی
-
No React!
- 0
بند تھا دروازہ بھی اور اگر میں بھی تنہا تھا میں وہم تھا جانے مرا یا آپ ہی بولا تھا میں یاد ہے اب تک مجھے وہ بد حواسی
ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو خود سے ملنے کی بھی ملتی نہیں فرصت ہم کو روشنی کا یہ مسافر ہے رہ جاں کا نہیں اپنے سائے
کب سے ہم لوگ اس بھنور میں ہیں اپنے گھر میں ہیں یا سفر میں ہیں یوں تو اڑنے کو آسماں ہیں بہت ہم ہی آشوب بال و پر
نہ آسماں سے نہ دشمن کے زور و زر سے ہوا یہ معجزہ تو مرے دست بے ہنر سے ہوا قدم اٹھا ہے تو پاؤں تلے زمیں ہی نہیں
عشق ایسا عجیب دریا ہے جو بنا ساحلوں کے بہتا ہے مغتنم ہیں یہ چار لمحے بھی پھر نہ ہم ہیں نہ یہ تماشا ہے اے سرابوں میں گھومنے
آنکھوں سے اک خواب گزرنے والا ہے کھڑکی سے مہتاب گزرنے والا ہے صدیوں کے ان خواب گزیدہ شہروں سے مہر عالم تاب گزرنے والا ہے جادوگر کی قید