سانسوں کے اس ہنر کو نہ آساں خیال کر
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
سانسوں کے اس ہنر کو نہ آساں خیال کر زندہ ہوں ساعتوں کو میں صدیوں میں ڈھال کر مالی نے آج کتنی دعائیں وصول کیں کچھ پھول اک فقیر
-
No React!
- 0
سانسوں کے اس ہنر کو نہ آساں خیال کر زندہ ہوں ساعتوں کو میں صدیوں میں ڈھال کر مالی نے آج کتنی دعائیں وصول کیں کچھ پھول اک فقیر
پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو ہجر والوں نے
یہ کہہ گئے ہیں مسافر لٹے گھروں والے ڈریں ہوا سے پرندے کھلے پروں والے یہ میرے دل کی ہوس دشت بے کراں جیسی وہ تیری آنکھ کے تیور
ہوا کا لمس جو اپنے کواڑ کھولتا ہے تو دیر تک مرے گھر کا سکوت بولتا ہے ہم ایسے خاک نشیں کیا لبھا سکیں گے اسے وہ اپنا عکس
ہر ایک شب یوں ہی دیکھیں گی سوئے در آنکھیں تجھے گنوا کے نہ سوئیں گی عمر بھر آنکھیں طلوع صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جائیں کہیں یہ
جب ہجر کے شہر میں دھوپ اتری میں جاگ پڑا تو خواب ہوا مری سوچ خزاں کی شاخ بنی ترا چہرہ اور گلاب ہوا برفیلی رت کی تیز ہوا