لہو میں رنگ لہرانے لگے ہیں
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
لہو میں رنگ لہرانے لگے ہیں زمانے خود کو دہرانے لگے ہیں پروں میں لے کے بے حاصل اڑانیں پرندے لوٹ کر آنے لگے ہیں کہاں ہے قافلہ باد
-
No React!
- 0
لہو میں رنگ لہرانے لگے ہیں زمانے خود کو دہرانے لگے ہیں پروں میں لے کے بے حاصل اڑانیں پرندے لوٹ کر آنے لگے ہیں کہاں ہے قافلہ باد
زندگانی جاودانی بھی نہیں لیکن اس کا کوئی ثانی بھی نہیں ہے سوا نیزے پہ سورج کا علم تیرے غم کی سائبانی بھی نہیں منزلیں ہی منزلیں ہیں ہر
یاد کے صحرا میں کچھ تو زندگی آئے نظر سوچتا ہوں اب بنا لوں ریت سے ہی کوئی گھر کس قدر یادیں ابھر آئی ہیں تیرے نام سے ایک
یہ گرد باد تمنا میں گھومتے ہوئے دن کہاں پہ جا کے رکیں گے یہ بھاگتے ہوئے دن غروب ہوتے گئے رات کے اندھیروں میں نوید امن کے سورج
جب بھی اس شخص کو دیکھا جائے کچھ کہا جائے نہ سوچا جائے دیدۂ کور ہے قریہ قریہ آئنہ کس کو دکھایا جائے دامن عہد وفا کیا تھا میں
آنکھوں سے اک خواب گزرنے والا ہے کھڑکی سے مہتاب گزرنے والا ہے صدیوں کے ان خواب گزیدہ شہروں سے مہر عالم تاب گزرنے والا ہے جادوگر کی قید