بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے گی
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے گی بام و در پہ نقش تحریر ہوا رہ جائے گی آنسوؤں کا رزق ہوں گی بے نتیجہ چاہتیں خشک ہونٹوں
-
No React!
- 0
بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے گی بام و در پہ نقش تحریر ہوا رہ جائے گی آنسوؤں کا رزق ہوں گی بے نتیجہ چاہتیں خشک ہونٹوں
کان لگا کر سنتی راتیں باتیں کرتے دن کہاں گئیں وہ اچھی راتیں باتیں کرتے دن ایک ہی منظر شہر پہ اپنے کب سے ٹھہرا ہے کچھ سوئی کچھ
کمال حسن ہے حسن کمال سے باہر ازل کا رنگ ہے جیسے مثال سے باہر تو پھر وہ کون ہے جو ماورا ہے ہر شے سے نہیں ہے کچھ
لہو میں رنگ لہرانے لگے ہیں زمانے خود کو دہرانے لگے ہیں پروں میں لے کے بے حاصل اڑانیں پرندے لوٹ کر آنے لگے ہیں کہاں ہے قافلہ باد
زندگانی جاودانی بھی نہیں لیکن اس کا کوئی ثانی بھی نہیں ہے سوا نیزے پہ سورج کا علم تیرے غم کی سائبانی بھی نہیں منزلیں ہی منزلیں ہیں ہر
یاد کے صحرا میں کچھ تو زندگی آئے نظر سوچتا ہوں اب بنا لوں ریت سے ہی کوئی گھر کس قدر یادیں ابھر آئی ہیں تیرے نام سے ایک