تارا تارا اتر رہی ہے رات سمندر میں
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
تارا تارا اتر رہی ہے رات سمندر میں جیسے ڈوبنے والوں کے ہوں ہاتھ سمندر میں ساحل پر تو سب کے ہوں گے اپنے اپنے لوگ رہ جائے گی
-
No React!
- 0
تارا تارا اتر رہی ہے رات سمندر میں جیسے ڈوبنے والوں کے ہوں ہاتھ سمندر میں ساحل پر تو سب کے ہوں گے اپنے اپنے لوگ رہ جائے گی
کان لگا کر سنتی راتیں باتیں کرتے دن کہاں گئیں وہ اچھی راتیں باتیں کرتے دن ایک ہی منظر شہر پہ اپنے کب سے ٹھہرا ہے کچھ سوئی کچھ
بستیوں میں اک صدائے بے صدا رہ جائے گی بام و در پہ نقش تحریر ہوا رہ جائے گی آنسوؤں کا رزق ہوں گی بے نتیجہ چاہتیں خشک ہونٹوں
در کائنات جو وا کرے اسی آگہی کی تلاش ہے مجھے روشنی کی تلاش تھی مجھے روشنی کی تلاش ہے غم زندگی کے فشار میں تری آرزو کے غبار
حضور یار میں حرف التجا کے رکھے تھے چراغ سامنے جیسے ہوا کے رکھے تھے بس ایک اشک ندامت نے صاف کر ڈالے وہ سب حساب جو ہم نے
کمال حسن ہے حسن کمال سے باہر ازل کا رنگ ہے جیسے مثال سے باہر تو پھر وہ کون ہے جو ماورا ہے ہر شے سے نہیں ہے کچھ