تنہائیوں کے دشت میں اکثر ملا مجھے
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
تنہائیوں کے دشت میں اکثر ملا مجھے وہ شخص جس نے کر دیا مجھ سے جدا مجھے وارفتگی مری ہے کہ ہے انتہائے شوق اس کی گلی کو لے
-
No React!
- 0
تنہائیوں کے دشت میں اکثر ملا مجھے وہ شخص جس نے کر دیا مجھ سے جدا مجھے وارفتگی مری ہے کہ ہے انتہائے شوق اس کی گلی کو لے
غم حیات میں کوئی کمی نہیں آئی نظر فریب تھی تیری جمال آرائی وہ داستاں جو تری دل کشی نے چھیڑی تھی ہزار بار مری سادگی نے دہرائی فسانے
دل کے سنسان جزیروں کی خبر لائے گا درد پہلو سے جدا ہو کے کہاں جائے گا کون ہوتا ہے کسی کا شب تنہائی میں غم فرقت ہی غم
کبھی حیات کا غم ہے کبھی ترا غم ہے ہر ایک رنگ میں ناکامیوں کا ماتم ہے خیال تھا ترے پہلو میں کچھ سکوں ہوگا مگر یہاں بھی وہی
لمحہ لمحہ شمار کون کرے عمر بھر انتظار کون کرے کوئی وعدہ بھی تو وفا نہ ہوا بے وفاؤں سے پیار کون کرے شب تیرہ و تار کا دامن
طویل راتوں کی خامشی میں مری فغاں تھک کے سو گئی ہے تمہاری آنکھوں نے جو کہی تھی وہ داستاں تھک کے سو گئی ہے گلا نہیں تجھ سے