راحت جاں سے تو یہ دل کا وبال اچھا ہے
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
راحت جاں سے تو یہ دل کا وبال اچھا ہے اس نے پوچھا تو ہے اتنا ترا حال اچھا ہے ماہ اچھا ہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا
-
No React!
- 0
راحت جاں سے تو یہ دل کا وبال اچھا ہے اس نے پوچھا تو ہے اتنا ترا حال اچھا ہے ماہ اچھا ہے بہت ہی نہ یہ سال اچھا
اک کھلونا ٹوٹ جائے گا نیا مل جائے گا میں نہیں تو کوئی تجھ کو دوسرا مل جائے گا بھاگتا ہوں ہر طرف ایسے ہوا کے ساتھ ساتھ جس
آنکھوں میں آنسوؤں کو ابھرنے نہیں دیا مٹی میں موتیوں کو بکھرنے نہیں دیا جس راہ پر پڑے تھے ترے پاؤں کے نشاں اس راہ سے کسی کو گزرنے
کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا مجھے گھر کاغذی پھولوں سے مہکانا نہیں آتا میں جو کچھ ہوں وہی کچھ ہوں جو ظاہر ہے وہ باطن
بڑا ویران موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ ہر اک جانب ترا غم ہے کبھی ملنے چلے آؤ ہمارا دل کسی گہری جدائی کے بھنور میں ہے ہماری آنکھ
درد ہوتے ہیں کئی دل میں چھپانے کے لیے سب کے سب آنسو نہیں ہوتے بہانے کے لیے عمر تنہا کاٹ دی وعدہ نبھانے کے لیے عہد باندھا تھا