دل عجب گنبد کہ جس میں اک کبوتر بھی نہیں
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
دل عجب گنبد کہ جس میں اک کبوتر بھی نہیں اتنا ویراں تو مزاروں کا مقدر بھی نہیں ڈوبتی جاتی ہیں مٹی میں بدن کی کشتیاں دیکھنے میں یہ
-
No React!
- 0
دل عجب گنبد کہ جس میں اک کبوتر بھی نہیں اتنا ویراں تو مزاروں کا مقدر بھی نہیں ڈوبتی جاتی ہیں مٹی میں بدن کی کشتیاں دیکھنے میں یہ
لوگوں کے درد اپنی پشیمانیاں ملیں ہم شاہ غم تھے ہم کو یہی رانیاں ملیں صحراؤں میں بھی جا کے نظر آئے سیل آب دریا سے دور بھی ہمیں
تعلق اپنی جگہ تجھ سے برقرار بھی ہے مگر یہ کیا کہ ترے قرب سے فرار بھی ہے کرید اور زمیں موسموں کے متلاشی! یہیں کہیں مری کھوئی ہوئی
آنکھیں اسے ڈھونڈیں گی تماشا نہیں ہوگا وہ دیکھیں گے ہم جو کبھی دیکھا نہیں ہوگا اک خواب زر و سیم سے گھر بھر گئے سارے اب کوئی یہاں
یہ رہ عشق ہے اس راہ پہ گر جائے گا تو ایک دیوار کھڑی ہوگی جدھر جائے گا تو شور دنیا کو تو سن رنگ رہ یار تو دیکھ
زمیں نہیں یہ مری آسماں نہیں میرا متاع خواب بجز کچھ یہاں نہیں میرا یہ اونٹ اور کسی کے ہیں دشت میرا ہے سوار میرے نہیں سارباں نہیں میرا