وہ آنے والا نہیں پھر بھی آنا چاہتا ہے
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
وہ آنے والا نہیں پھر بھی آنا چاہتا ہے مگر وہ کوئی مناسب بہانا چاہتا ہے یہ زندگی ہے یہ تو ہے یہ روزگار کے دکھ ابھی بتا دے
-
No React!
- 0
وہ آنے والا نہیں پھر بھی آنا چاہتا ہے مگر وہ کوئی مناسب بہانا چاہتا ہے یہ زندگی ہے یہ تو ہے یہ روزگار کے دکھ ابھی بتا دے
شجر سمجھ کے مرا احترام کرتے ہیں پرندے رات کو مجھ میں قیام کرتے ہیں سنو تم آخر شب گفتگو درختوں کی یہ کم کلام بھی کیا کیا کلام
بیٹھتا اٹھتا تھا میں یاروں کے بیچ ہو گیا دیوار دیواروں کے بیچ جانتا ہوں کیسے ہوتی ہے سحر زندگی کاٹی ہے بیماروں کے بیچ میرے اس کوشش میں
نہ تجھ سے ہے نہ گلا آسمان سے ہوگا تری جدائی کا جھگڑا جہان سے ہوگا تمہارے میرے تعلق کا لوگ پوچھتے ہیں کہ جیسے فیصلہ میرے بیان سے
ہم نے چپ رہ کے جو ایک ساتھ بتایا ہوا ہے وہ زمانا مری آواز میں آیا ہوا ہے غیر مانوس سی خوشبو سے لگا ہے مجھ کو تو
کنج غزل نہ قیس کا ویرانہ چاہئے جو غم مجھے ہے اس کو عزا خانہ چاہئے ہے جس کا انتظار پلک سے فلک تلک اب آنا چاہئے اسے آ