نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی کب التفات تھا کہ جو خوئے ستم گئی پھیرا بہار کا تو برس دو برس میں ہے یہ چال ہے خزاں
-
No React!
- 0
نور سحر کہاں ہے اگر شام غم گئی کب التفات تھا کہ جو خوئے ستم گئی پھیرا بہار کا تو برس دو برس میں ہے یہ چال ہے خزاں
ترے جلوے تیرے حجاب کو میری حیرتوں سے نمو ملی کہ تھا شب سے دن کبھی تیرہ تر کبھی شب ہی آئنہ رو ملی تری قربتوں سے بھی کیا
پھر بہار آئی ہے پھر جوش میں سودا ہوگا زخم دیرینہ سے پھر خون ٹپکتا ہوگا بیتی باتوں کے وہ ناسور ہرے پھر ہوں گے بات نکلے گی تو
آخر دل کی پرانی لگن کر کے ہی رہے گی فقیر ہمیں ہر رت آتے جاتے پائے ایک ہی شے کا اسیر ہمیں دھوم مچائے بہار کبھی اور پات
شوخ تھے رنگ ہر اک دور میں افسانوں کے دل دھڑکتے ہی رہے آس میں انسانوں کے علم نے خیر نہ چاہی کبھی انسانوں کی ذرے برباد یونہی تو
تھی تو سہی پر آج سے پہلے ایسی حقیر فقیر نہ تھی دل کی شرافت ذہن کی جودت اتنی بڑی تقصیر نہ تھی سچ کہتے ہو ہم ایسے کہاں