اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں کیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں کیوں ترے درد کو دیں تہمت ویرانئ دل زلزلوں میں
-
No React!
- 0
اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں کیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں کیوں ترے درد کو دیں تہمت ویرانئ دل زلزلوں میں
اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک زیر خنجر کوئی
یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی اس دشت میں اک شہر تھا وہ کیا ہوا آوارگی کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا
اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا کس کے بس میں تھا ہوا کی وحشتوں کو
اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا دل کا عالم ہے ترے بعد خلاؤں جیسا کاش دنیا مرے احساس کو واپس کر دے خامشی کا وہی انداز
ترے بدن سے جو چھو کر ادھر بھی آتا ہے مثال رنگ وہ جھونکا نظر بھی آتا ہے تمام شب جہاں جلتا ہے اک اداس دیا ہوا کی راہ