تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا یاد آئی وہ پہلی بارش جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا ہرے گلاس میں چاند کے
-
No React!
- 0
تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا یاد آئی وہ پہلی بارش جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا ہرے گلاس میں چاند کے
کب تلک مدعا کہے کوئی نہ سنو تم تو کیا کہے کوئی غیرت عشق کو قبول نہیں کہ تجھے بے وفا کہے کوئی منت نا خدا نہیں منظور چاہے
جب رات گئے تری یاد آئی سو طرح سے جی کو بہلایا کبھی اپنے ہی دل سے باتیں کیں کبھی تیری یاد کو سمجھایا یوں ہی وقت گنوایا موتی
کون اس راہ سے گزرتا ہے دل یوں ہی انتظار کرتا ہے دیکھ کر بھی نہ دیکھنے والے دل تجھے دیکھ دیکھ ڈرتا ہے شہر گل میں کٹی ہے
تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی آنکھ کہتی ہے ترے دل میں طلب ہے کوئی آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے پیرہن ہے کہ سلگتی
ترے خیال سے لو دے اٹھی ہے تنہائی شب فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی انہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں