جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں
-
No React!
- 0
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں
اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک زیر خنجر کوئی
آپ کی آنکھ سے گہرا ہے مری روح کا زخم آپ کیا سوچ سکیں گے مری تنہائی کو میں تو دم توڑ رہا تھا مگر افسردہ حیات خود چلی
اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے مری کہ شاخ شاخ
اتنی مدت بعد ملے ہو کن سوچوں میں گم پھرتے ہو اتنے خائف کیوں رہتے ہو ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا ریت
اگرچہ میں اک چٹان سا آدمی رہا ہوں مگر ترے بعد حوصلہ ہے کہ جی رہا ہوں وہ ریزہ ریزہ مرے بدن میں اتر رہا ہے میں قطرہ قطرہ