آئی ہے اب یاد کیا رات اک بیتے سال کی
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
آئی ہے اب یاد کیا رات اک بیتے سال کی یہی ہوا تھی باغ میں یہی صدا گھڑیال کی مہک عجب سی ہو گئی پڑے پڑے صندوق میں رنگت
-
No React!
- 0
آئی ہے اب یاد کیا رات اک بیتے سال کی یہی ہوا تھی باغ میں یہی صدا گھڑیال کی مہک عجب سی ہو گئی پڑے پڑے صندوق میں رنگت
بیٹھ جاتا ہے وہ جب محفل میں آ کے سامنے میں ہی بس ہوتا ہوں اس کی اس ادا کے سامنے تیز تھی اتنی کہ سارا شہر سونا کر
ہنسی چھپا بھی گیا اور نظر ملا بھی گیا یہ اک جھلک کا تماشا جگر جلا بھی گیا اٹھا تو جا بھی چکا تھا عجیب مہماں تھا صدائیں دے
تجھ سے بچھڑ کر کیا ہوں میں اب باہر آ کر دیکھ ہمت ہے تو میری حالت آنکھ ملا کر دیکھ شام ہے گہری تیز ہوا ہے سر پہ
ہے شکل تیری گلاب جیسی نظر ہے تیری شراب جیسی ہوا سحر کی ہے ان دنوں میں بدلتے موسم کے خواب جیسی صدا ہے اک دوریوں میں اوجھل مری
رات اتنی جا چکی ہے اور سونا ہے ابھی اس نگر میں اک خوشی کا خواب بونا ہے ابھی کیوں دیا دل اس بت کمسن کو ایسے وقت میں