ہیں رواں اس راہ پر جس کی کوئی منزل نہ ہو
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
ہیں رواں اس راہ پر جس کی کوئی منزل نہ ہو جستجو کرتے ہیں اس کی جو ہمیں حاصل نہ ہو دشت نجد یاس میں دیوانگی ہو ہر طرف
-
No React!
- 0
ہیں رواں اس راہ پر جس کی کوئی منزل نہ ہو جستجو کرتے ہیں اس کی جو ہمیں حاصل نہ ہو دشت نجد یاس میں دیوانگی ہو ہر طرف
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے گیا تو اس طرح گیا کہ مدتوں نہیں ملا ملا جو پھر
کوئی حد نہیں ہے کمال کی کوئی حد نہیں ہے جمال کی وہی قرب و دور کی منزلیں وہی شام خواب و خیال کی نہ مجھے ہی اس کا
پی لی تو کچھ پتہ نہ چلا وہ سرور تھا وہ اس کا سایہ تھا کہ وہی رشک حور تھا کل میں نے اس کو دیکھا تو دیکھا نہیں
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں
وہی اک پکار وہی فغاں مری مہر دیدہ و لب میں ہے ہے کراہ جو شب و روز کی جو فضا کے شور و شغب میں ہے کبھی دن