پی لی تو کچھ پتہ نہ چلا وہ سرور تھا
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
پی لی تو کچھ پتہ نہ چلا وہ سرور تھا وہ اس کا سایہ تھا کہ وہی رشک حور تھا کل میں نے اس کو دیکھا تو دیکھا نہیں
-
No React!
- 0
پی لی تو کچھ پتہ نہ چلا وہ سرور تھا وہ اس کا سایہ تھا کہ وہی رشک حور تھا کل میں نے اس کو دیکھا تو دیکھا نہیں
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے گیا تو اس طرح گیا کہ مدتوں نہیں ملا ملا جو پھر
دیتی نہیں اماں جو زمیں آسماں تو ہے کہنے کو اپنے دل سے کوئی داستاں تو ہے یوں تو ہے رنگ زرد مگر ہونٹ لال ہیں صحرا کی وسعتوں
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں
اس کی شکایت کون کرے گا دل کی وہ حالت گر نہ رہی بارے تیرے تلون سے یکسانیٔ شام و سحر نہ رہی اپنی طرح اس وحشت گاہ میں
وہی اک پکار وہی فغاں مری مہر دیدہ و لب میں ہے ہے کراہ جو شب و روز کی جو فضا کے شور و شغب میں ہے کبھی دن