عجیب خوف مسلط تھا کل حویلی پر
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
عجیب خوف مسلط تھا کل حویلی پر لہو چراغ جلاتی رہی ہتھیلی پر سنے گا کون مگر احتجاج خوشبو کا کہ سانپ زہر چھڑکتا رہا چنبیلی پر شب فراق
-
No React!
- 0
عجیب خوف مسلط تھا کل حویلی پر لہو چراغ جلاتی رہی ہتھیلی پر سنے گا کون مگر احتجاج خوشبو کا کہ سانپ زہر چھڑکتا رہا چنبیلی پر شب فراق
رات کے بعد وہ صبح کہاں ہے دن کے بعد وہ شام کہاں جو آشفتہ سری ہے مقدر اس میں قید مقام کہاں بھیگی رات ہے سونی گھڑیاں اب
قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر سر سلامت
وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے وہ بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیں باتیں میری میرے دشمن مرے لفظوں
آ گئی یاد شام ڈھلتے ہی بجھ گیا دل چراغ جلتے ہی کھل گئے شہر غم کے دروازے اک ذرا سی ہوا کے چلتے ہی کون تھا تو کہ
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں تو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں