میں ازل کا راہرو مجھ کو ابد کی جستجو

عارف عبدالمتین

میں ازل کا راہرو مجھ کو ابد کی جستجو گرد رہ میرے جلو میں ساتھ میرے میں نہ تو زرد تھا چہرہ مگر مسرور تھا پہلو میں دل برگ گل جب لے اڑا چپکے سے میرا رنگ و بو مجھ کو اپنے شہر کا ہر ایک ذرہ ہے عزیز اے ہوا لے جا اڑا کر خاک میری کو بہ کو وقت کا دریا کہ جس میں میں کنول بن کر کھلا سوچئے تو بحر ہے اور دیکھیے تو آب جو میں مصور ہوں مگر تصویر ہے خالق مری رنگ بھرتی ہے مرے خاکے میں میری آرزو ذات کا آئینہ جب دیکھا تو حیرانی ہوئی میں نہ تھا گویا کوئی مجھ سا تھا میرے روبرو لذت خود آگہی کا فیض ہے عارفؔ کہ ہم پہروں اپنے آپ سے رہتے ہیں محو گفتگو

X