جہاں تک گیا کاروان خیال نہ تھا کچھ بجز حسرت پائمال مجھے تیرا تجھ کو ہے میرا خیال مگر زندگی پھر بھی ہے خستہ حال جہاں تک ہے دیر و حرم کا سوال رہیں چپ تو مشکل کہیں تو محال تری کائنات ایک حیرت کدہ شناسا مگر اجنبی خد و خال مری کائنات ایک زخم کہن مقدر میں جس کے نہیں اندمال نئی زندگی کے نئے مکر و فن نئے آدمی کی نئی چال ڈھال ہوئے رخصت انجم سحر کے قریب نہ دیکھا گیا شاید اپنا مآل