اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں
- By Rebeca Powel
- January 10, 2025
اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں کیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں کیوں ترے درد کو دیں تہمت ویرانئ دل زلزلوں میں
-
No React!
- 0
اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں کیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں کیوں ترے درد کو دیں تہمت ویرانئ دل زلزلوں میں
اتنی مدت بعد ملے ہو کن سوچوں میں گم پھرتے ہو اتنے خائف کیوں رہتے ہو ہر آہٹ سے ڈر جاتے ہو تیز ہوا نے مجھ سے پوچھا ریت
اجڑ اجڑ کے سنورتی ہے تیرے ہجر کی شام نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے تیرے ہجر کی شام یہ برگ برگ اداسی بکھر رہی ہے مری کہ شاخ شاخ
نیا ہے شہر نئے آسرے تلاش کروں تو کھو گیا ہے کہاں اب تجھے تلاش کروں جو دشت میں بھی جلاتے تھے فصل گل کے چراغ میں شہر میں
آپ کی آنکھ سے گہرا ہے مری روح کا زخم آپ کیا سوچ سکیں گے مری تنہائی کو میں تو دم توڑ رہا تھا مگر افسردہ حیات خود چلی
ایک پل میں زندگی بھر کی اداسی دے گیا وہ جدا ہوتے ہوئے کچھ پھول باسی دے گیا نوچ کر شاخوں کے تن سے خشک پتوں کا لباس زرد