اس کی شکایت کون کرے گا دل کی وہ حالت گر نہ رہی بارے تیرے تلون سے یکسانیٔ شام و سحر نہ رہی اپنی طرح اس وحشت گاہ میں ہر عنوان سے رسوا ہے جب سے فغان نیم شبی ممنون باب اثر نہ رہی اونچی شاخ کا پھول بھی کیا اور قربت کی مخموری کیا دور و قریب کی کوئی یاد بھی راحت دل بن کر نہ رہی جیتے رہے تو ٹھانی ہے یہ نومیدانہ زیست کریں اور کوئی تدبیر نہ تھی جو اب تک پیش نظر نہ رہی کس برتے پر باتیں بنائیں یعنی شعر شعار کریں رنگ زمانہ دیکھ کے ہم کو ہمت عرض ہنر نہ رہی