غفور احمد قریشی (بارسلونا)
سپین میں بنایا جانے والا تاریخ کا وہ مہنگا ترین محل جسے ایک مسلمان بادشاہ نے اپنی کنیز کی خوشنودی کے لئے بنایا تھا، اب یہ کس حال میں ہے جان کر آپ پر حیرتوں کے پہاڑ گر پڑیں گے
سپین میں مسلمانوں کی عظمت کی کئی یادگاریں موجود ہیں جو اب عبرت کا نشان بنی نظر آتی ہیں ۔مسلمان حکمرانوں نے قابل مثال اور مہنگی ترین عمارات تعمیر کیں جس کا پورے یورپ میں کوئی ثانی نہیں تھا ۔ سپین جب اندلس کہلاتا تھا تو مسلم حکمرانوں میں سے سلطان عبدالرحمن بن ثالث اس معاملے بہت مشہور ہوا تھا جس نے قرطبہ میں ایک ایسا محل بھی تعمیر کرایا تھا جو اس وقت دنیا کاسب سے مہنگا ترین محل تھا ۔
سلطان 891 ء میں پیدا ہوا تھا اور ۷۲ سال کی عمر میں وفات پا گیا تھا۔ اس کی ایک چہیتی باندی کا نام ’’الزہرا‘‘ تھا۔۔۔ سلطان نے اپنی اس باندی کے نام پر قرطبہ کے کنارے ایک محل تعمیر کیااوراس کا نام ’’الزہرا‘‘ رکھا۔۔۔
چار میل لمبا اور تین میل چوڑا یہ محل اتنا بڑا تھا کہ لوگ اس کو قصر الزہرا کے بجائے مدینۃ الزہرا کہنے لگے۔۔۔اس محل کی تعمیر ۳۲۵ ھ میں شروع ہوئی اور پچیس سال میں ۳۵۰ ھ میں مکمل ہوئی۔۔۔اس محل کے بنانے پر دس ہزار معمار چار ہزار اونٹ اور خچر روزانہ کام کرتے تھے۔۔۔
سنگ مرمر اور آرائش و زیبائش کے دوسرے بہت سے قیمتی ساز و سامان،فرانس۔۔۔ترکی ۔۔۔یونان ۔۔۔شام اور افریقہ کے ملکوں کے بادشاہوں نے بطور تحفہ دیئے تھے۔۔۔ اس کی چھتوں میں سونے چاندی کا کام اس کثرت سے کیا گیا تھا کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا جاتی تھیں۔۔۔اس محل کے نظام اور نگرانی کے لیے ۱۳ ہزار ۷۵۰ ملازم مقرر تھے۔۔۔اس کے علاوہ ۱۳ ہزار ۳۸۲ غلام تھے۔۔۔
حرم سرا (زنانہ حصے) کے اندر چھ ہزار عورتیں خدمت گزاری کے یے حاضر رہا کرتی تھیں۔۔۔سارا قصر باغات اور فواروں سے گلزار رہا کرتا تھا۔۔۔بعدازاں یورپ اور دیگر ممالک سے سیاح بکثرت اس محل کو دیکھنے کے لیے آتے۔۔۔مگر اس عظیم الشان محل کا انجام کیا ہوا؟۔۔۔۲۵ سال میں ایک کھرب روپیہ سے بھی زیادہ میں بننے والا محل صرف ایک صدی کے اندر اندر ختم ہوگیا۔۔۔اندلس کے مسلم حکمرانوں کے باہمی اختلافات اور خانہ جنگیوں کی وجہ سے قرطبہ کا الزہرا کھنڈ ر بنا دیا گیا۔۔۔
عیسائیوں نے ایک طویل عرصے کی سازشوں اور کوششوں سے آخر کار ان بکھرے ہوئے مسلمانوں پر قابو پا لیا اور ان کو شکست دے کر ان کا نام و نشان تک مٹا دیا۔۔۔اس کے بعد اس پر زمانہ کی گرد پڑتی رہی۔۔۔موجودہ زمانے میں اس محل کی جگہ ٹوٹی پھوٹی دیواریں اور بغیر کواڑوں کی چوکھٹیں مسلمانوں کی نا اتفاقی اور بربادی کا رونا رو رہی ہیں۔۔